اِسے ڈھونڈو
ماہ و سال شائد یوں ہی گُزرتے جاتے لیکن شعور نام کی بیماری ایک عمر میں لازمی لاحق ہوجاتی ہے۔ قدرت کا وطیرہ بھی شائید یہی رہا ہے کہ یہ بیماری ہمیشہ دیر سے ہی لاحق ہوتی جب بُہت کُچھ کھویا جا چُکا ہوتا ہے اور مزید کھونے کے لئے دان پر لگایا ہوتا ہے۔ایسے میں ہی شعور کا امتحان شروع ہوتا ہے۔جس میں سرفہرست دان شدہ کو واپس حاصل کرنا اور گنوائے جا چُکے کا حساب چُکتا کرنا ہوتا ہے۔ اِک نظر دیکھا جائے تو یہ سب کسی مشہور مصنف کے ناول جیسا آسان لگتا ہے۔ جس میں ہر چیز خود بخود اچھے انجام کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ اس کے لئے بڑھے سگریٹ پھونکنے پڑھتے ہیں اور ۔شب بیداریوں کا حساب الگ سے لکھنا پڑتا ہے۔ لیکن جو بھی ہو جائے نتیجہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ آپ ایک اچھی رپورٹ اور ایک لائحہ عمل تو تیار کر لیتے ہیں اب اس پر عمل کرنے کے لئے اعصاب کی مضبوطی کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن جب آپ کو پتا چلتا ہے کہ یہ گوہر نیاب بھی سب کھوئی جانی والی چیزوں میں سے ایک تھا تو آپ ایک بار پھر سے کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔تو دوستو شعور اگر خود نہیں آتا تو اس کو خود اپنے پر طاری کر لیں۔ کیونکہ اگر وقت گزر گیا اور سب گوہر نایاب کھوگئے تو۔۔۔۔ تمہاری داستاں تک نہ رہے گی داستانوں میں۔
دوسری ہی پوسٹ پر فلسفی بن گئے ہیں
ReplyDeleteاچھا لکھا ہے، اور واقعی شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے اگر سن شعور میں پہنچنے کے بعد بھی وہ خود بیدار نہیں ہوتا۔
چوھدری ہو کر فلسفے کی باتیں تجھے جچتی نہیں
ReplyDeleteیار وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ بتاؤ
ReplyDeleteمذاق کس کا اُڑا رہے ہو میرا یا فلسفے کا
@Saad Malik: سمجھدار ایشارہ کافی ایست
ReplyDeleteشعور کے بارے میں لکھ دیا ، تحت الشعور اور لا شعور کا کیا قصور ہے ؟؟؟
ReplyDeleteالسلامُ علیکم
ReplyDeleteبہت خوب
پہلی نظر میں دیکھا تو سوچا کسی کا اقتباس لگا دیا ہے
ReplyDeleteمصنف بننے کے خواب دیکھ سکتے ہو،
عبداللہ آدم
@ حجاب
ReplyDeleteبی بی یہ دونوں کون ہیں تحت الشعور اور لاشعور
لاشعور کا تو پتا یہ یہ تحت الشعور کیا ہے؟
@ زارا اور عبداللہ
ReplyDeleteشکریہ جناب
جب تبصرہ لکھا تھا میں نے مجھے نفسیات یاد آگئی تھی ، اب موڈ نہیں تفصیل لکھنے کا پھر کبھی سہی ۔۔
ReplyDelete