Saturday, July 20, 2013

امید ِ افطاری


اس نے مجھ سے پوچھا کہ مفہومِ غلط فہمی کیا ہے
میں نے مسکرا کے کہا تم سے امید ِ افطاری —




شاعر کہ اسی شعر سے انداززہ لگا لو لوگو
کہ اس بار کسی نے افطاری پر انوائیٹ نہیں کیا گھر میں ہی کدو گھیا چل رہا ہے۔
دیکھو بھئی میں گنہگار سا بندہ ہوں اس عظیم سبزی کے لائق نہیں کوئی گنہگار سا مرغا پکڑو اور میری افطاری کرو۔
ہاں وہ علیحدہ بات ہے اس بار میں باہر سے کوئی بوفے قسم کی افطاری نہیں کروں گا
بولے تو 1000 والی بوفے افطاری سے بہتر کسی ضرورت مند کو راشن دینا ہے شائید 1000 اسکا مہینے بھر کا کھانے کا بجٹ ہو۔
اسلئے ہم تو بائیکاٹ کئیے ہوئے ہیں لیکن تمہیں سب کو کیا ہوگیا ہے۔
کسی دشمن نے کہلایا ہوگا کہ میں افطاری کی دعوت قبول نہیں کرتا
سب لوگ جو کرنا ہے جلدی کرو
پہلا عشرہ ختم ہوا چاہتا ہے
دیر مت کرو
آخر کو

مجھے دعوت افطاری سے پیار ہے

Thursday, May 2, 2013

کاغز کا ٹکرا

[URD]

رات کے آخری پہر کی سرد ہوا دن بھر کی تپش کو کم کر رہی تھی۔ ہوا کے سرد جھونکے سامنے کھڑکی کے ساتھ لگے وجود کی سوچوں میں میں ایک مسلسل ہیجان پیدا کر رہے تھے۔ میرا اس سے سامنا اکثر رات کے اسی پہر ہوتا تھا۔ اس دو گھڑی کی ملاقات میں نہ کوئی سوال نہ جواب بس اس کا کھڑکی کے ساتھ لگ کر اسی کورے کاغذ کو دیکھنا۔۔ یہی اس کا روز کا معمول تھا۔ کاغذ کہ اس ٹکڑے میں نجانے ایسا کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہوئے گھنٹوں بِیتائے جا سکیں۔ کبھی کبھار اس کا کاغذ کو کو یوں شدت سے دیکھنا کہ جیسے اس پر کسی تحریر کے نمودار ہونے کا انتظار ہو مجھے عجیب محضمے میں مبتلا کر دیتا تھا۔ کاغذ کےا س ٹکڑے کے بارے میں جاننے کا اضطراب دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا، میں اسی کوشش میں تھا کہ وہ اس کاغذ کے ٹکڑے سے اک پل کہ لئیے نظریں ہٹائے لیکن ایسا ہونا ناممکنات میں سے تھا۔ اسنے کاغذ کے اس ٹکڑے کو مٹھی میں یوں بھینچا ہوا تھا کہ جیسے وہی اس کی متاع حیات ہو۔ اس کا روز کا یہی معمول مجھے سخت بے چین کرتا تھا مجھے اس کاغذ کے ٹکڑے کی حقیقت جاننے کی دلچسپی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ عین اسی وقت دور کہیں ایک مکان میں ایک وجود  بستر کےساتھ سر لگا کر بیٹھا تھا اسکی نظریں مسلسل دروازے پر لگی تھیں جیسےا سے برسوں سے کسی کا انتظار ہو۔ اسی بے چینی میں اسکے چہرے پر چھائی گھٹائیں کسی خاموش طوفان کا پتا دے رہی تھیں۔ آج مجھے کھڑکی تک پہنچتے کُچھ دیر ہوگئی اس شخض کے چہرے کی گہرائی اور ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے ٹکڑے پر اسکی گرفت بتا رہی تھی کہ اس نے کوئی فیصلہ کر لیا ہے۔ اسکے چہرے پر موجود خاموشی بتارہی تھی کہ کُچھ ہونے والا ہے ۔ اچانک اسے نے کاغذ کے ٹکڑے کو مروڑا اور ہوا میں اچھال دیا ا اسکی آنکھوں کی گہرائی بتا رہی تھی  جیسے کسی قرب سے گزرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہو۔ میں نے لپک کر اس کاغذ کے ٹکرے کو پکڑنا چاہا لیکن ہوا کے جھونکوں نے میری یہ کوشش ناکام بنا دی دیکھتے ہی دیکھتے کاغذ کا وہ ٹکرا رات کہ گہر میں گم ہوگیا۔۔

وہ روزانہ کی طرح اس دن بھی بسترکہیں بچھا کہ دہلیز کے پاس بیٹھی تھی جیسے اُسے کسی کے آنے کا انتظار ہو۔  نگاہوں میں آس لئیے یوں دروازے کو گھورنا اس کا روز کا معمول تھا شئاید انتظار لاحاصل اسکے وجعد کا حصہ بن چُکا تھا۔پھر اچانک بیٹھے اچانک اسے دروازے پہ ہلکی سی سرسراہٹ سنائی دی اس نے لپک کر دیکھنا چاہا کہ جیسے برسوں کا انتظار ختم ہوگیا ہو لیکن یہ کیا کاغذ کا ایک کورا ٹکرا اس کا منہ چڑا رہا تھا۔۔

[/URD]

Sunday, January 8, 2012

اِسے ڈھونڈو

اِسے ڈھونڈو 


ماہ و سال شائد یوں ہی گُزرتے جاتے لیکن  شعور نام کی بیماری ایک عمر میں لازمی لاحق ہوجاتی ہے۔ قدرت کا وطیرہ بھی شائید یہی رہا ہے کہ یہ بیماری ہمیشہ دیر سے ہی لاحق ہوتی جب بُہت کُچھ کھویا جا چُکا  ہوتا ہے اور مزید کھونے کے لئے دان پر لگایا ہوتا ہے۔ایسے میں ہی شعور کا امتحان  شروع ہوتا ہے۔جس میں سرفہرست دان شدہ کو واپس حاصل کرنا اور گنوائے جا چُکے کا حساب چُکتا کرنا ہوتا ہے۔  اِک نظر دیکھا جائے تو یہ سب کسی مشہور مصنف کے ناول جیسا آسان لگتا ہے۔ جس میں ہر چیز خود بخود اچھے  انجام کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ اس کے لئے بڑھے سگریٹ پھونکنے پڑھتے ہیں اور ۔شب بیداریوں کا حساب الگ سے لکھنا پڑتا ہے۔ لیکن جو بھی ہو جائے نتیجہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ آپ ایک اچھی رپورٹ اور ایک لائحہ عمل تو تیار کر لیتے ہیں اب اس پر عمل کرنے کے لئے اعصاب کی مضبوطی کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن جب آپ کو پتا چلتا ہے کہ یہ گوہر نیاب بھی سب کھوئی جانی والی چیزوں میں سے ایک تھا تو آپ ایک بار پھر سے کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔تو دوستو شعور اگر خود نہیں آتا تو اس کو خود اپنے پر طاری کر لیں۔ کیونکہ  اگر وقت گزر گیا اور سب گوہر نایاب کھوگئے تو۔۔۔۔ تمہاری داستاں تک نہ رہے گی داستانوں میں۔


Saturday, January 7, 2012

یہ کیا تھا


یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

 یہ شعر ہی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آج میں نے بھی بلاگنگ کرنے کا نادر فیصلہ کر لیا ہے۔
مزید پڑھنے سے پہلے میرے حق میں دعائے خیر ضرور  فرمائیں۔
بات دراصل کُچھ یوں ہے کہ عرصہ دراز سے کُچھ شناساؤں کےبلاگ دیکھ دیکھ کر دل میں امنگ جاگی کہ ایک اپنا بھی بلاگ ہو جہاں میری پوسٹیں ماڈریٹ کرنے والا کوئی نہ ہو۔ تو آج اُسی تشنگی کو پورا کرنے کے لئے کُچھ ہاتھ پیر مار رہا ہوں نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
 تو  فیصلہ کرنے کے بعد معلوم پڑھا کہ اصل امتحاں ابھی باقی ہے۔۔ جی ہاں بات کر رہا ہوں ٹائٹل کی۔ اسے سوچنے میں کوئی  3 گھنٹے لگے۔ سوچا پہلا پہلا بلاگ ہے کُچھ ادبی بے ادبی کا تاثر چھوڑنا چاہئے جسمیں مرچ مصالحہ بھی ہو اور مکس مٹھائی بھی ملے۔
بس اسے لے کر بُہت خیالات آئے ٹائٹل کے حوالے سے جن میں  وضو کے آداب، دنیا مطلب دی، بونگیاں ، مسٹر فراڈئیے، تیری میری، شورش زدہ، خواب سہانے، بلاگ پلس سرفہرست ہیں :ڈ
لیکن جب کہیں  بات بنتی ہوئی نہ نظر آئی تو پھر جو لکھا گیا آپ کے سامنے  ہے حسب ذائقہ نوش فرمالیں۔
تو یہ وہ تمہید تھی جو پچھلے دو گھنٹے سے سوچ رہا تھا

اب اُن سب کا ذکر جن کے بلاگ دیکھ کر بلاگنگ جاگی
خرم ابن شبیر، افتخار اجمل بھوپال ، ڈفرستان ، حال دل خاموش آواز ، پھپے کُٹنی ، حجابِ شب ، انکل ٹام ،  خاور کھوکھر ، شازل اور ایم بلال کی بیاض